Friday 12 February 2016

ہنسنا منع ہے


ہنسنا  منع ہے

٭٭٭






ایک دوست (دوسرے سے): "یار! تمہاری مرغی کا کیا حال ہے جو سائکل کے نیچے آگئی تھی؟



دوسرا دوست: "اس کا حال تو ٹھک ہے بس انڈے ٹوٹے ہوئے دیتی ہے۔"

ایک لڑکا سڑک پر بھیک مانگ رہا تھا۔ ایک عورت نے کہا، "تمہیں شرم نہیں آتی؟ تمہاری عمر کے لڑکے تو اسکول جاتے ہیں۔"
"وہاں بھی گیا تھا، مگر کسی نے ایک پیسا بھی نہیں دیا۔" لڑکے نے جواب دیا۔
استاد (دو لڑکوں سے): "ارے! آپس میں سر کیوں ٹکرا رہے ہو؟"
ایک لڑکا: "جناب! آپ ہی نے تو کہا تھا کہ ریاضی میں پاس ہونے کے لیے دماغ لڑانا ضروری ہے۔"
ایک دوست (دوسرے سے): "ڈاکٹر نے مجھے کرکٹ کھیلنے سے منع کردیا ہے۔"
دوسرا دوست: "شاید اس نے تمہیں کرکٹ کھیلتے ہوئے دیکھ لیا ہے۔"
مہمان (چھٹا کینو لیتے ہوئے میزبان سے): "اجی، کیا بتاؤں میری نظر تو بہت کمزور ہے۔"
میزبان (جل کر): "جی ہاں! جبھی آپ کینوؤں کو انگور سمجھ کر کھا رہے ہیں۔"
مجسٹریٹ (جیب کترے سے): "تم نے اس آدمی کی جیب سے بٹوہ کس طرح نکال لیا؟"
جیب کترا (تن کر): اس علم کو سکھانے کی فیس پانچ سو رپے ہے۔"
٭٭٭
ایک خاتون نے بڑا سا کیک خریدا۔ بیکری والے نے چھری اٹھاتے ہوئے پوچھا، "چھے ٹکڑے کروں یا آٹھ؟"
"چار کردیں، میں آج کل ڈائٹنگ کر رہی ہوں۔" خاتون نے جواب دیا۔
ڈاکٹر (نوکر سے): "دیکھو دروازے پر کون آیا ہے۔"
نوکر: "کوئی مریض ہوگا!"
ڈاکٹر: "جاؤ معلوم کرو مریض نیا ہے یا پرانا۔"
نوکر: "نیا ہی ہوگا۔ آپ کے پاس آکر پرانا تو مشکل ہی سے بچتا ہے۔"
ایک کوچوان (دوسرے کوچوان سے): "تمہارا گھوڑا سوکھی گھاس بڑے شوق سے کھا رہا ہے۔ جب کہ میرا گھوڑا تو صرف ہری گھاس کھاتا ہے۔
دوسرا کوچوان (بڑے فخر سے): "میں نے گھوڑے کی آنکھوں پر ہرے شیشوں کا چشمہ لگایا ہوا ہے۔"
٭٭٭
جیل کا داروغہ (قیدی سے): "معاف کرنا، میں نے تمہیں چار دن زیادہ قید میں رکھا۔"
قیدی: " کوئی بات نہیں۔ آئندہ آؤں تو چار دن پہلے رہا کردینا۔"
ایک آدمی نجومی کے پاس گیا اور بولا، "میری ہتھیلی میں کھجلی ہورہی ہے۔"
نجومی بولا، "تم کو جلد ہی دولت ملنے والی ہے۔"
آدمی بولا، "میرے پاؤں میں بھی کھجلی ہورہی ہے۔"
نجومی بولا، "تم سفر بھی کرو گے۔"
آدمی بولا، "میرے سر میں بھی کھجلی ہورہی ہے۔"
نجومی جھلا کر بولا، "چلو بھاگو یہاں سے، تمہیں تو خارش کی بیماری معلوم ہوتی ہے۔"
عورت (لڑکے سے): تمہارا اسکول کہاں ہے؟
لڑکا: میرے گھر کے سامنے۔
عورت: تو تمہارا گھر کہاں ہیں؟
لڑکا: اسکول کے سامنے۔
عورت: اچھا دونوں کہاں ہیں؟
لڑکا: ایک دوسرے کے سامنے۔
ایک دوست (دوسرے سے): یار! جب سے تمہارے گھر آیا ہوں یہ مکھیاں پیچھا ہی نہیں چھوڑتیں۔
دوسرا دوست: کھیاں گندی چیزوں کو دیکھ کر ہی منڈلاتی ہیں۔
ایک دوست (دوسرے سے): جب سورج کی پہلی کرن مجھ پر پڑتی ہے میں اٹھ جاتا ہوں۔
دوسرا دوست: لیکن تمہاری امی کہتی ہیں کہ تم پورا دن سوتے رہتے ہو۔
پہلا دوست: ہاں دراصل میرے کمرے کی کھڑکی مغرب میں ہے۔
اطلاعی بیل بجنے پر بیوی نے دروازہ کھولا تو دروازے پر شوہر کو کھڑاپایا۔
بیوی نے مسکرا کر کہا، "آپ کے چہرے سے تھکن ظاہر ہورہی ہے۔ لگتا ہے آج آپ نے آفس میں بہت کام کیا ہے۔"
شوہر نے کہا، "ہاں بات تو یہی ہے۔"
بیوی نے کہا، "پھر تو زبردست کھانا ہونا چاہیے۔ بیف برگر، بروسٹ، فرائیڈ فش، آئس کریم اور آخر میں کولڈ ڈرنک۔"
شوہر نے کہا، "نہیں، کھانا ہم آج گھر میں ہی کھائیں گے۔"
ایک دوست (دوسرے سے): وہ کون سی چیز ہے جس کے چار پاؤں ہوتے ہیں مگر وہ چل نہیں سکتی؟۔
دوسرا دوست: ایسی کوئی چیز نہیں ہے۔
پہلا دوست: میز۔
ایک دوست (دوسرے سے): میں نے نیا فلیٹ خرید لیا ہے اور کمرے کو بہترین طریقے سے سجایا ہے۔
دوسرا دوست: کیسے سجایا ہے؟
پہلا دوست: بالکل آفس کے انداز میں، تاکہ مجھے خوب گہری نیند آئے۔
استاد جی کلاس میں ایک ڈبہ لے کر آئے ۔ لڑکوں نے پوچھا ، " استاد جی ! اس ڈبے میں کیا ہے ؟"
استاد نے کہا ، " جو درست بتائے گا ، اسے اس ڈبے سے دو پینسلیں ملیں گی۔"
ایک فلسفی اور گنجا حجام اکھٹے سفر کر رہے تھے ۔
جب رات ہوگئی تو انہوں نے طے کیا کہ باری باری پہرہ دیا جائے ۔ پہلے حجام کی باری تھی ۔ حجام کا دل بہت گھبرایا ۔ اس نے تھیلی میں سے اوسترا نکال کر فلسفی کو گنجا کر دیا ۔ جب فلسفی کی باری آئی تو اس نے بے خیالی سے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہنے لگا ، " باری میری تھی اٹھا حجام کو دیا ۔ "
استاد ( لڑکے کے باپ سے ) : جناب ! آپ کا بیٹا کلاس میں بہت کمزور ہے ۔
باپ : اللہ کے فضل سے گھر میں دو بھینسیں ہیں ۔ دودھ مکھن کی کوئی کمی نہیں ۔ پھر بھی معلوم نہیں کیوں کمزور ہے ۔
ایک دوست ( دوسرے سے ): میری بچپن میں خواہش تھی کہ میں دنیا کا سب سے بڑا جھوٹا بنوں۔
دوسرا دوست : پھر کیا ہوا ؟
پہلا دوست : بس پھر کیا ، میں وکیل بن گیا۔
برطانوی وزیر اعظم ایک عام جلسے میں تقریر کر رہے تھے۔ اچانک پنڈال سے باہر ایک گدھے نے رینکنا شروع کردیا۔ انہوں نے تقریر جاری رکھی۔ اس پر پیچھے سے آواز آئی، "ایک وقت میں ایک جناب۔"
ایک انگریز سیاح نے جو چینی زبان نہیں جانتا تھا، مینو کی آخری سطر پر انگلی رکھتے ہوئے بیرے سے کہا کہ وہ اس ڈش کی ایک پلیٹ لے آئے۔بیرے نے جو انگریزی جانتا تھا، مسکراتے ہوئے کہا، "معاف کیجیے جناب! آپ کے حکم کی تعمیل نہ ہو سکے گی، کیوں کہ یہ ہمارے ہوٹل کے مالک کا نام ہے۔"
ایک دن ملا نصرالدین رمضان میں کھانا کھا رہے تھے۔ ایک آدمی نے دیکھا تو پوچھا "آپ رمضان میں کھانا کھا رہے ہیں۔"
ملا نے جواب دیا، "آپ اس پلیٹ کو رمضان کہتے ہیں۔ میں تو اسے پلیٹ کہتا ہوں اور میں پلیٹ میں کھانا کھا رہا ہوں رمضان میں نہیں۔"
ایک صاحب قبرستان میں ایک قبر کے پاس کھڑے رو رو کر کہہ رہے تھے، "تم تو چلے گئے، مگر میری زندگی کو خزاں بنا گئے۔"
ایک راہ گیر نے ہمدردی میں ان سے پوچھا، "اس قبر میں آپ کا کوئی عزیز دوست یا رشتےدار دفن ہے؟"
ان صاحب نے جواب دیا، "جی نہیں، یہ میری بیوی کے پہلے شوہر کی قبر ہے۔"
باپ (بیٹے سے) : کیا امتحان میں سوال آسان تھے؟
بیٹا: سوال تو آسان تھے، مگر جواب مشکل تھے۔
شیخی خور (دوستوں کی محفل میں): ارے میلبورن کے میچ میں جاوید میاں داد نے سو رن بنا کر کون سا کمال کیا ہے۔ سو رن بنانا میرے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، لیکن۔۔۔ 
"لیکن کیا؟" سب نے دل چسپی سے پوچھا۔
شیخی خور (ہنستے ہوئے): اگر امپائر مجھے آؤٹ نہ دے تو!
مالک (ملازم سے): تمہیں دفتر میں آئے ہوئے صرف ایک دن ہوا ہے اور تم نے تین کرسیاں توڑ ڈالیں۔
ملازم: جناب، آپ کے اشتہار میں لکھا تھا کہ آپ کو مضبوط آدمی چاہیے۔
مشہور سائنسداں آئن اسٹائن ایک مرتبہ بس میں سفر کر رہے تھے۔ انہوں نے اپنے ہینڈ بیگ سے کچھ ضروری کاغذات نکال کر پڑھنا چاہے تو خیال آیا کہ اپنا چشمہ تو گھر بھول آئے ہیں۔ مجبورا ساتھ بیٹھے ہوئے شخص سے کہا، "ازراہ کرم! ذرا یہ کاغذات پڑھ دیجیے۔"
اس شخص نے مسکراتے ہوئے کہا، "جناب! میں بھی آپ کی طرح جاہل ہوں۔"
ایک آدمی کچھ سامان لے کر سڑک پر بہت تیز دوڑ رہا تھا۔
ایک پولیس سارجنٹ نے اسے روک کر پوچھا، "بھائی! تم کہاں بھاگ رہے ہو؟"
اس آدمی نے کہا، "میں اپنی بیوی کے لیے چیزیں خرید کر لے جا رہا ہوں۔"
"مگر اس میں دوڑنے کی کیا بات ہے؟" سارجنٹ نے تعجب بھرے لہجے میں کہا۔
"میں بھاگ اس لیے رہا ہوں، کیوں کہ اگر میں دیر سے گھر پہنچا تو کہیں فیشن نہ بدل جائے اور مجھے واپس جانا پڑے۔"
ایک بڑی فیکٹری کا مالک جب اپنے اسٹور روم کے معائنے کے لیے گیا تو اس نے باہر ایک نوجوان کو دیکھا جو درخت کی چھاؤں تلے بیٹھا گنگنا رہا تھا۔ مالک نے اس سے پوچھا، "تم کیا کام کرتے ہو؟"
وہ بولا، "میں چپڑاسی ہوں۔"
مالک نے پوچھا، "تمہیں ہر ماہ کتنی تنخواہ ملتی ہے؟"
چپڑاسی نے جواب دیا، "چار سو روپے۔"
مالک نے اپنی پتلون کی جیب سے سو سو کے چار نوٹ نکالے اور انہیں چپڑاسی کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا، "نکل جاؤ میری فیکٹری سے! آئندہ پھر کبھی نہیں آنا۔"
جب چپڑاسی فیکٹری کے احاطے سے چلا گیا تو مالک نے مینیجر کو بلا کر پوچھا، "وہ کام چور چپڑاسی کتنے دن سے ہمارے ہاں ملازم تھا؟"
"سر! وہ ہمارا ملازم نہیں تھا۔ کسی اور فیکٹری سے خط لے کر آیا تھا اور جواب کا انتظار کر رہا تھا۔

محبت رسول اللّه صلی اللہ علیہ وسلم کے مختصر واقعات


محبت رسول اللّه صلی اللہ علیہ وسلم کے مختصر واقعات


ایک دفعہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ”اللہ کی قسم ! آپ مجھے اپنی جان کے علاوہ دنیاکی ہرچیز سے زیادہ عزیز اورمحبوب ہیں۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” اے عمر! جب تک تم مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب نہیں جانوگے اس وقت تک تم سچے مسلمان نہیں ہوسکتے۔ “
تب ” عمررضی اللہ عنہنے فرمایا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایاہے اب آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز اورمحبوب ہیں۔ “
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” عمر !اب جبکہ تم نے مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب سمجھاہے تو اب تمہاراایمان کامل ہوگیا۔ “ (بخاری ۔حدیث نمبر6632)
کھجور کا تنا رونے لگا : مسجد نبوی کی چھت کھجور کے تنوں پر بنائی گئی تھی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دیتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک تنے کے سہارے کھڑے ہوجاتے تھے ، کبھی کبھی خطبہ لمبا ہوجاتاتھا،اس لیے ایک انصاری عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سہولت کے لیے کہاکہ (اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک منبر بنوادیں ؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انصاری عورت کی بات مان لی تو اس عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جھا ؤ کے درخت سے تین سیڑھیوں والاایک منبر تیارکروادیا، جمعہ کادن آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تنے کے بجائے منبر کی طرف تشریف لے گئے ۔ وہ تنا غم فراق سے رونے لگا۔
صحیح بخاری میں جابر بن عبد اللہرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن خطبہ کے وقت ایک درخت یا کھجور کے تنے کے پاس کھڑے ہوتے تھے۔ ایک انصاری نے پیش کش کی : اے اللہ کے رسول !کیاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک منبر نہ بنادیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جیسے تمہاری مرضی
انصاری عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک منبر بنوا دیا۔ جمعہ کا دن آیاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف فرماہوئے تو وہ تنا بچے کی طرح چیخ چیخ کررونے لگا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اترے اوراس تنے کو آغوش میں لے لیاتووہ اس بچے کی طرح ہچکیاں لینے لگاجسے بہلا کر چپ کرایاجارہاہو ۔ تنے کارونا ، فراق رسول صلی اللہ علیہ وسلم اورذکر اللہ سے محرومی کی بناپر تھاجسے وہ پہلے قریب سے سنا کرتاتھا۔(بخاری :2095)
مذکورہ احادیث سے پتہ چلا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے بغیر ہمارے ایمان کی تکمیل ممکن نہیں ہے ۔لفظ حب ، محبت اور اس طرح کے الفاظ صرف شہوانی خواہشات اوربرے معنوں میں نہیں آتے بلکہ اصلاً یہ اعلی و پاکیزہ معانی کی ترجمانی کرتے ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام سے محبت رکھتے تھے توصحابہ کرام بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا برتا ؤ کرتے تھے۔اس طرح کے واقعات سیرت نبوی کی کتابوں میں بھرے پڑے ہیں جن کی نظیر تاریخ میں ملنی ناممکن ہے ۔
آج محبت کا لفظ صرف خاص معنی میں استعمال ہوتاہے کہ محبت کے اندر شہوانی پہلو پایاجائے جبکہ محبت ایک پاکیزہ اورجامع لفظ ہے ،اس کے اندر سب سے اہم پہلو اللہ اور رسول سے محبت کاہے ، اللہ اور رسول کی محبت کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوسکتا۔
موجودہ دور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخیوں کے واقعات رونماہوتے رہتے ہیں۔لیکن رد عمل کے سلسلے میں جوباتیں آتی ہیں اس کی کئی قسمیں ہیں۔ایک تو مثبت ردعمل ہے اوردسرامنفی۔
سیرت کی کتابوں میں ایک واقعہ ہے کہ ابوعبیدہ بن الجراح غزوہ احد کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے خود کڑیاں اپنے دانتوں سے نکال رہے تھے، اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منھ میں خون بھی بھرآیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ اسے تھوک دو ، لیکن وہ پی گئے اور کہا کہ میراپیٹ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خون کا زمین سے زیادہ مستحق ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر سن کر عمررضی اللہ عنہ کا ردعمل:جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفا ت کی خبر عمررضی اللہ عنہ کو پہونچی تو وہ اپنی تلوار کھینچ کر کھڑے ہوگئے اور بلند آواز سے کہنے لگے: منافقوں کے چند لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم انتقال فرماگئے ، حالانکہ وہ فوت نہیں ہوئے ۔ وہ اپنے رب کے پاس اس طرح گئے ہیں جس طرح موسی علیہ السلام گئے تھے۔ وہ ضرور واپس آئیں گے اور لوگوں کے ہاتھ اور پا ؤں کاٹیں گے۔ عمرفاروق رضی اللہ عنہ جوش وجذبہ میں اس طرح کی باتیں کہہ رہے تھے کہ ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ آگئے ، صورتحال جاننے کے بعد علٰیحدہ کھڑے ہوگئے اورفرمایا:”اگر تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پوچتے تھے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو فوت ہوگئے ، اور اگرتم اللہ تعالی کی پرستش کرتے تھے تو اللہ تعالی بے شک زندہ ہے اور وہ کبھی نہیں مرے گا “ پھر ابوبکرصدیقؓ نے قرآن کی یہ آیت پڑھی وما محمد الا رسول قدخلت من قبلہ الرسل…. توسب لوگ پرسکون ہو گئے ۔۔۔

Drust Simat - Amazing Short Story

صحیح سمت 

ایک مختصر واقعہ

شفیق بلخی ؒ، ابراہیم ادھم ؒ سے ملنے گئے۔ فرمایا، ’’تجارت کے لیے جارہا ہوں، کچھ ماہ لگ جائیں گے۔ اس لیے آپ سے ملنے چلا آیا۔‘‘ چند دن بعد نماز میں ابراہیم ادھم نے شفقیق کو مسجد میں دیکھا۔ پوچھا، آپ تو چلے گئے تھے، یہاں کیسے؟ شفقیق بولے: میں راستے میں ایک ویران جگہ کچھ دیر کے لیے رکا۔ دیکھا ، اک چڑیا ہے جو اڑنے سے معذور ہے۔ سوچا کہ یہ کیسے کھانا کھاتی ہوگی۔ اتنے میں ایک اور چڑیا منہ میں خوراک دبائے آئی۔ اس کے منہ سے خوراک گر گئی جو اِس چڑیا نے اٹھالی۔میں نے سوچا کہ اللہ جب اس معذور چڑیا کو رزق اس کے پاس پہنچا سکتا ہے تو مجھے شہر شہر بھٹکنے کی ضرورت کیا ہے۔ بس میں واپس آگیا۔ ابراہیم نے جواب دیا: شفیق، تم نے وہ پرندہ بننا پسند کیا جو محتاج ہے۔ وہ بننا کیوں پسند نہ کیا جو اپنے پروں پہ اڑ کے جاتا ہے۔ اپنے بازوئوں کی طاقت سے خود بھی زندہ ہے اور دوسروں کی زندگی کا سامان بھی کرتا ہے۔ شفیق نے ابراہیم کا ہاتھ چوما اوربولے، ابراہیم، اللہ تم پہ رحمتیں کرے۔ تم نے میری آنکھوں سے پردہ ہٹا دیا۔ بات جو تم نے کی وہی صحیح ہے۔ یہ وہ صحیح ترین رویہ ہے جو انسان اختیار کرتا ہے۔ صالح اور مفید لوگ دنیا کی نعمتیں حاصل کرتے ہیں لیکن ان سے دل نہیں لگاتے۔ وہ اشیا کی حقیقت سے بھی آگاہ ہوتے ہیں اور ان سے متعلق دی گئی ہدایاتسے بھی۔ شاعرِحقیقت نے کمزوری کا نتیجہ بیان فرمایا:
تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سےہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
بد کرداروں کے نزدیک تو ضعیفی ہے ہی ناقابلِ معافی جرم۔ اسی بنا پہ خدا دینے
والے طاقتور صالح ہاتھ کو پسند فرماتا ہے۔

Wednesday 10 February 2016

Qemti Rishta Short Urdu Story

قیمتی اور نازک رشتہ


عورت جس گھر سے آتی ھے وھاں ایک ماں ھوتی ھے جو اس کی غلطیوں کو چھپاتی ھے ، بڑی کو چھوٹا کر کے دکھاتی ھے ،، خود بیمار بھی ھو تو گھسٹ گھسٹ کر کام کرتی رھتی ھے بیٹی کو کچھ نہیں کرنے دیتی کہ بیچاری پڑھائی کر رھی ھے ، آج کل پڑھائی بڑی ٹف ھے ،بیچاری ھر وقت پڑھائی مین لگی رھتی ھے ،،چاھے بیٹی ھر وقت فیس بک پہ ھی بیٹھی رھے مگر ماں خود آگے بڑھ کر اس کے لئے عذر تراشتی ھے اور خود ھی قبول بھی کر لیتی ھے ،،،،،،،،،،،،،،، اسے ساس اور سسرال کا کوئی تجربہ نہیں ھوتا وہ سمجھتی ھے کہ ایک ماں کے پاس سے دوسری ماں کے پاس منتقل ھو رھی ھے ،،،،،،،،،،، مگر یہ شوھر کی ماں ھے جو اکثر و بیشتر ڈھونڈ ڈھونڈ کر غلطیاں تلاش کرتی ،، چھوٹی ملے تو بڑی بنا لیتی ھے اور پھر محلے میں ڈھنڈورہ بھی پیٹ دیتی ھے ،، ماؤں کو اپنی بچیوں کو اس صورتحال کے لئے تیار کر کے بھیجنا پڑے گا کہ ، اگلے گھر میں غلطی کی گنجائش بہت کم ھوتی ھے ، اسے آپ کی لمبی نماز سے کچھ لینا دینا نہیں انہیں وقت پہ کھانا چاھئے ،گھر سجا سجایا اور کچن صاف چاھیئے ،، کہے بغیر یہ کام اپنی ڈیوٹی سمجھ کر کرنے چاھئیں یہ مت سمجھیں کہ میکے کی طرح میں نہیں کرونگی تو امی کر دے گی ،، اگلے گھر دیر یا سویر آپ نے ھی کرنا لہذا سویرے سویرے ھی کر لینا چاھئے ، شوھر آپ کا ساتھی ھے مگر سینئر ھے ،، سینئر کے ساتھ اختلاف بھی ھو تو جونیئر کی طرح ھی کیا جاتا ھے ،، آپ ایک ادارے میں ملازم ھوں اور آپ کے سینئر سے غلطی بھی ھو جائے تو اس سینئر کو غلطی سے آگاہ کرنے کا ایک طریقہ کار ھوتا ھے ، آپ کا کام غلطی پوائنٹ آؤٹ کرنا ھے منوانا نہیں ھے کہ وہ آپ کو لکھ کر دے کہ واقعی مجھ سے غلطی ھوئی ھے ،، شوھر گھر دیر سے بھی آئے تو اس کی غلطی پہ اس سے دودھ والے یا پانی دینے والے ماشکی کی طرح باز پرس اور جرح کرنا گھر کو برباد کر دیتا ھے ،،، اسے یہ کہنے کی بجائے کہ کہاں مر گئے تھے ،، یہ بھی کہا جا سکتا ھے کہ جب تک آپ گھر سے باھر رھتے ھیں میرا دل مٹھی میں بند رھتا ھے کہ اللہ خیر کرے کوئی حادثہ نہ ھو گیا ھو ،آپ پلیز مجھے ایک میسج ھی کر دیا کریں وغیرہ وغیرہ ،، خون کے رشتے کبھی نہیں چھوٹتے وقتی ناراضیاں ھو بھی جائیں تو کبھی نہ کبھی صلح ضرور ھو جاتی ھے ،یہ رشتے اس سکے کی طرح ھوتے ھیں جو گندی نالی میں گر بھی جائے تو جب بھی نکلے اس کی قیمت میں کوئی کمی واقع نہیں ھوتی ،،یا اس نوٹ کی طرح ھوتے ھیں جو پھٹ بھی جائے تو جب جڑے گا پوری قیمت پہ چلے گا ،، اس لئے بیوی شوھر کی بہن بھائیوں سے ناراضی کو حتمی سمجھ کر بغلیں نہ بجایا کرے ،صرف ماں کی بیماری ھی ان سب کو پکڑ کر گلے لگا دے گی ،شوھر بہن بھائیوں سے ناراض ھو بھی جائے تو بیوی کو اسے درگزر کا مشورہ ھی دینا چاھئے تا کہ کل کلاں وہ راضی ھوں تو آپ کو دکھ بھی نہ ھو اور آپ بدنام بھی نہ ھوں ،،،،،،، ایک بات پلو سے باندھ لیں، کہ سب سے نازک رشتہ میاں بیوی کا ھے جس کے ٹوٹنے کا امکان ھر عمر میں موجود ھے ، یہ چند لفظوں کا رشتہ ھے ،اس کی نزاکت کو مدِ نظر رکھ کر ھی اس کو ڈیل کرنا چاھیئے ، یہ جتنا قیمتی ھے ویسا ھی نازک بھی ھے ۔۔

لیلی کی کہانی - رومینٹک کیانی


لیلی کی کہانی
love letter

لیلیٰ نے کمرے میں داخل ہو کر اپنا پرس پلنگ پر اچھال دیا اور خود ڈریسنگ ٹیبل کی جانب بڑھ گئی۔ ڈریسنگ کے سامنے بیٹھ کر آہستہ آہستہ وہ اپنی جیولری اتارنے لگی۔ اس کے چہرے پر خاموش مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی۔ آج بھی اس کا شو بہت کامیاب رہا تھا۔ وہ دل ہی دل میں یہ سوچ کر خوش ہو رہی تھی کہ وہ ملک کی نمبر وَن سٹیج ڈانسر ہے۔ اس کا شو تو ہمیشہ ہی کامیاب رہتا تھا لیکن آج کی خاص بات یہ تھی کہ شو کے اختتام پر اس کے ایک پرستار نے اسے گاڑی گفٹ کی تھی۔

"واہ لیلیٰ واہ۔۔۔ تُو پانچ سات منٹ کے لیے سٹیج پر تھوڑی سی ادائیں کیا دکھاتی ہے، لوگ تجھ پرسب کچھ لٹانے پر تیار ہو جاتے ہیں۔" لیلیٰ نے آئینے میں اپنے حسین عکس سے مخاطب ہو کر فخر سے کہا۔

"تُو صرف ادائیں نہیں دکھاتی لیلیٰ۔۔۔ اِس نیم عریاں لباس میں تُو اپنے جسم کی نمائش بھی تو کرتی ہے۔" پیچھے سے آواز آئی۔ لیلیٰ نے چونک کر پیچھے دیکھا تو دروازے کے پاس اس کی بڑی بہن ماریہ کھڑی تھی جو نفرت سے اسے دیکھتے ہوئے طنز کے تِیر چلا رہی تھی۔
"تم۔۔۔؟" لیلیٰ یک دم پلٹ کر اٹھی اور بولی، ”تم میرے کمرے میں کیا کر نے آئی ہو؟
"کم از کم تمہیں اس بیہودہ لباس میں دیکھنے کے لیے تو نہیں آئی." ماریہ نے پھر سے طنز بھرے انداز میں اس کے لباس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اور ایک لفافہ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولی، "لو۔۔۔ یہ تمہارے لیے آیا ہے۔ یقیناً انہی بدکردار مردوں میں سے کسی کا ہو گا جنہیں تم اپنے پرستار کہتی ہو۔ کھول کر دیکھ لو، ہو سکتا ہے اس لفافے میں بھی تمہاری کسی ادا کی قیمت بند ہو۔"

ماریہ لفافہ اسے تھما کر کمرے سے نکل گئی اور لیلیٰ کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھتی ہی رہ گئی۔ لیلیٰ نے دیکھے بغیر لفافہ پلنگ پر پھینک دیا اور دوبارہ ڈریسنگ کے سامنے بیٹھ گئی۔ ماریہ کی کڑوی کڑوی باتوں نے اس کی ساری خوشی نِگل لی تھی۔ خراب موڈ کے ساتھ اس نے جلدی جلدی باقی ماندہ جیولری اتاری اور پلنگ پر آبیٹھی۔ اب اس نے وہ لفافہ اٹھا کر دیکھا۔ لفافے کے ایک کونے پر لکھا تھا "فرام۔۔۔ ارحم". یہ نام پڑھ کر لیلیٰ کی پیشانی کی سلوٹیں مدھم پڑ گئیں اور چہرے پر پھر سے مسکراہٹ پھیل گئی۔

آئے دن لیلیٰ کے لیے کسی نہ کسی پرستار کا خط، کارڈ یا پھولوں کا تحفہ آتا رہتا تھا۔ ان میں سے اکثر خطوط تو لیلیٰ پڑھے بغیر ہی پھاڑ دیا کرتی تھی کیونکہ زیادہ پر خطوط میں پرستاروں کی طرف سے محبت کا ہی اظہار ہوتا تھا جسے پڑھ پڑھ کر لیلیٰ تنگ آ چکی تھی۔ لیکن ارحم۔۔۔ ارحم کے خطوط نہ صرف لیلیٰ فرصت نکال کر پڑھتی بلکہ پڑھنے کے بعد انہیں سنبھال کر رکھ لیتی تھی۔ ارحم کے خطوط میں ہر بار کوئی نہ کوئی انوکھی خصوصیت ہوتی تھی۔ وہ اپنے خطوط میں لیلیٰ کی تعریف کچھ اس انداز سے کرتا تھا کہ پڑھ کر لیلیٰ کوخود پر پہلے سے زیادہ فخر ہونے لگتا۔ بعض دفعہ تو وہ لیلیٰ کو کسی خاص لباس یا خاص قسم کے بناؤ سنگھار کی فرمائش بھی کیا کرتا اور اس کی فرمائشوں کو لیلیٰ اپنے شو میں بڑے شوق سے پورا کرتی۔ لیلیٰ کو لگتا تھا کہ ایک ارحم ہی ہے جو سچے دل سے اس کی تعریف کرتا ہے جبکہ باقی سب خوشامد اور وقت گزاری کے طور پر اس کی تعریفیں کرتے ہیں۔ ارحم اسے خطوط تو باقائدگی سے بھیجتا تھا لیکن وہ کبھی اس کے سامنے نہیں آیا تھا۔ آج بھی اس کا خط دیکھ کر لیلیٰ نے خوشی خوشی لفافہ کھولا۔ خط میں لکھا تھا:

"ڈئیر لیلیٰ۔۔۔ ہو سکتا ہے میرا آج کا خط تمہیں خوشی دینے کی بجائے غمگین کر دے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسے پڑھنے کے بعد تمہیں مجھ سے نفرت ہو جائے۔ لیکن لیلیٰ۔۔۔ میرا یقین کرو، میں تمہارا مخلص ہوں۔ اس لیے تمہاری امانت تم تک پہنچانا میرا فرض بنتا ہے۔"

لیلیٰ خط کو پکڑے پکڑے تکیے کا سہارا لے کر نیم دراز ہوتے ہوئے سوچنے لگی، "لگتا ہے ارحم آج پھر کسی نئے انداز سے تعریف کرنا چاہ رہا ہے۔ لیکن یہ امانت کا کیا چکر ہے۔۔۔؟" اس نے مزید پڑھا تو لکھا تھا:

"لیلیٰ۔۔۔ کل رات میں نے ایک خواب دیکھا۔ اس خواب میں مَیں نے تمہیں دیکھا۔ جب سے آنکھ کھلی ہے تب سے دل بہت بے چین ہے۔ نہ کچھ کھانے پینے کو دل چاہتا ہے، نہ کسی سے بات کرنے کو۔"

"ہا ہا ہا۔۔۔“ لیلیٰ یہ پڑھ کر ہنس دی اور خود سے مخاطب ہو کر بولی، "لو جی۔۔۔ بس خوابوں میں آنے کی کسر رہ گئی تھی۔ آج سے ہم اُن کے خوابوں میں بھی آنے لگے۔ اور ظاہر ہے، ہم جس کے خوابوں میں آئیں گے اس کا چین وین تو اُڑے گا ہی۔" لیلیٰ کا غرور سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ آگے پڑھا تو لکھا تھا:

"میں نے تمہیں خواب میں زمین پر نہیں دیکھا۔ شاید تم آسمان پر تھی۔ میں بھی وہاں موجود تھا۔ وہ ایک ایسی عجیب و غریب جگہ تھی کہ ایسی جگہ میں نے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔"

"ارے یہ کیا۔۔۔ اب ارحم بھی دوسرے ایرے غیرے پرستاروں کی طرح مجھے آسمان پر لے جانے کے خواب دیکھنے لگا۔ ہا ہا ہا۔"
:پھر قہقہہ لگایا اور آگے پڑھنے لگی۔ لکھا تھا

"برا نہ منانا لیلیٰ۔ وہ جگہ۔۔۔ وہ جگہ دراصل جہنم تھی۔"

اوہ شِٹ۔۔۔" لیلیٰ خط اپنے ہاتھ سے نیچے پھینکتے ہوئے بولی،"یہ کیا ہو گیا ہے ارحم کو۔ دماغ تو نہیں خراب"
"ہو گیا اس کا۔ یقین نہیں آتا کہ ایسا بیہودہ خط ارحم نے لکھا ہے۔

تھوڑی دیر لیلیٰ اسے کوستی رہی۔ پھر اچانک اسے خیال آیا کہ ارحم کا اندازِ تحریر ہمیشہ مختلف رہا ہے۔ ہو سکتا ہے یہ بھی اس کا کوئی نیا انداز ہو یا وہ کچھ اور کہنا چاہ رہا ہو۔ اس خیال کے ساتھ ہی اس نے دوبارہ
:خط اٹھا لیا۔ آگے تحریر تھا

وہاں میں نے کچھ فرشتے بھی دیکھے جنہوں نے زبردستی تم کو عجیب سی خوفناک آگ کا بنا ہوا لباس پہنا
"دیا۔ تم چیختی چلاتی رہی لیکن انہوں نے تمہاری ایک نہ سنی۔

اُف۔۔۔ یہ کیا بکواس ہے۔" لیلیٰ شدید غصے میں آ گئی۔ اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ غصے میں
اسنے خط کو دو حصوں میں پھاڑ کر پلنگ پر ہی ایک طرف پھینک دیا اور خود دل پر ہاتھ رکھ کر اپنی 
دھڑکنوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرنے لگی۔

وہ میرے سامنے آیا تو میں اس کا خون پی جاؤں گی۔ سمجھتا کیا ہے وہ خود کو۔ اس کی ہمت کیسے ہوئی"
"میرے بارے میں ایسی بکواس لکھنے کی۔

لیلیٰ ارحم کو کوستے ہوئے خود سے ہمکلامی کے انداز میں بڑبڑائی۔ چند لمحوں بعد ایک خیال نے اسے چونکا دیا کہ کیا واقعی ارحم نے اس کے متعلق ایسا خواب دیکھا ہو گا؟ اور اگر دیکھا ہو گا تو کیا یہ خواب سچ بھی ہو سکتا ہے؟ کیا مرنے کے بعد میرا ایسا ہی انجام ہو گا؟ اس خیال نے لیلیٰ کے جسم میں ایک بجلی کی سی رو پیدا کر دی۔ اس کا سارا جسم کانپ اٹھا۔ وہ جھٹ سے اٹھ کر بیٹھ گئی اور خط کے دونوں ٹکڑوں
:کو دوبارہ ملا کر پڑھنا شروع کردیا۔ آگے لکھاتھا

آگ کے لباس نے تمہارے جسم کو یوں جھلسا دیا کہ تمہاری کھال گل کر ہڈیوں اور گوشت سے علیحدہ ہونے"
"لگی۔

خوف سے لیلیٰ کی آنکھیں پھٹی جا رہی تھیں لیکن اس نے اردہ کر لیا تھا کہ اب وہ پورا خط پڑھ کر ہی
:دم لے گی۔ لہٰذا وہ پڑھتی گئی۔ خط میں مزید لکھا تھا

جب تمہاری ساری کھال اتر گئی تو تمہاری نئی کھال پیدا کر دی گئی۔ پھر وہ کھال بھی گل گئی۔ یہ عمل"
مسلسل جاری تھا اور تمہاری چیخوں سے جہنم کی دیواریں لرز رہی تھیں۔ مجھے تم پر بہت ترس آیا لیکن میں کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ میں قریب کھڑا یہ سب دیکھتا رہا۔ پھر میں نے فرشتوں سے پوچھا کہ تم لوگ اس کے ساتھ ایسا سلوک کیوں کر رہے ہو۔ انہوں نے جواب دیا کہ اس نے جس جسم کو لوگوں کی نظروں کے سامنے بے پردہ چھوڑ دیا تھا وہ جسم اسی لباس کے قابل ہے جو اِسے پہنایا گیا ہے۔ 
پھر میں نے دیکھا کہ کچھ اور فرشتے آتے ہیں۔ ان کے پاس بڑے بڑے کلہاڑے کی طرح کے اوزار ہیں۔ وہ ان کلہاڑے نما اوزاروں سے ایک ہی وار میں تمہارے پاؤں پنڈلیوں سمیت کاٹ ڈالتے ہیں۔ تمہاری درد ناک چیخ سے ایک بار پھر جہنم کی دیواریں لرزنے لگتی ہیں۔ چند لمحوں بعد تمہاری ٹانگیں دوبارہ جوڑ دی جاتی ہیں اور پھر اسی طرح کاٹی جاتی ہیں۔ یہ عمل بھی بار بار دہرایا جاتا ہے۔ میں بے چینی کے عالم میں پھر فرشتوں سے کہتا ہوں کہ آگ کے لباس کی سزا کیا کم تھی کہ ساتھ ساتھ یہ نئی سزا بھی شروع کر دی گئی ہے۔ فرشتے کہتے ہیں کہ یہ نئی سزا اس کے پاؤں اور ٹانگوں کی سزا ہے جن سے یہ مَردوں کے سامنے ناچ ناچ کر حرام کی کمائی حاصل کرتی تھی۔ اس کی حرام کی کمائی بھی غلاظت بن کر اس کے ساتھ ہی اِسی
"جہنم میں پہنچ چکی ہے۔ ابھی اسے وہ غلاظت بھی کھلائی جائے گی۔

مجھ سے تمہارا یہ حال دیکھا نہیں جاتا اس لیے میں وہاں سے بھاگنا شروع ہو جاتا ہوں اور بھاگتے بھاگتے
بہت دور چلا جاتا ہوں۔ معاف کرنا لیلیٰ۔۔۔ میں تمہارا سب سے بڑا پرستار ہوں لیکن میں بھی تمہیں تنہا چھوڑ کر بھاگ گیا۔ اب میں سوچتا ہوں کہ اگر مرنے کے بعد ابدی زندگی میں ہی مَیں تمہیں تکلیف سے نہیں بچا سکتا تو پھر دنیا کی مختصر زندگی میں تمہیں خطوط کے ذریعے خوش کرنے کا کیا فائدہ۔ یہی سوچ کر میں تم سے ہمیشہ کے لیے دور جا رہا ہوں۔ آج کے بعد تمہیں کبھی میرا خط موصول نہیں ہو گا۔
یہی خواب وہ امانت تھی لیلیٰ۔۔۔ جو خدا نے مجھے تمہارے لیے عطا کی۔ میں نے وہ امانت تم تک پہنچا دی ہے۔ اب تمہیں کیا کرنا چاہیے، کیا نہیں کرنا چاہیے، یہ تم خود سمجھ سکتی ہو۔ تم چاہو تو میرے اس خواب کی تعبیر الٹ بھی ہو سکتی ہے اگر تم ایسی زندگی چھوڑ دو جو تمہیں کہیں کا نہیں چھوڑے گی۔
"تمہارا خیر خواہ۔۔۔ ارحم

خط ختم ہو چکا تھا لیکن لیلیٰ کی نظریں ابھی بھی خط سے ہٹ نہیں پائی تھیں۔ اس کا جسم پسینے سے شرابور تھا اور آنکھیں برس برس کر گریبان کو بھگو چکی تھیں۔ حسن پر غرور کرنے والی لیلیٰ کو آج پہلی بار اپنے آپ سے گھِن آ رہی تھی۔ اس کا جی چاہ رہا تھا کہ اپنا منہ نوچ لے، اپنے ہی جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے، کہ کسی طرح اس گناہ گار جسم سے چھٹکارا حاصل ہو جائے۔ ایک بار پھر اٹھ کر وہ آئینے کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔ لیکن اب آئینے میں اسے وہ چہرہ نظر نہیں آ رہا تھا جسے دیکھ کر وہ ہر روز خوش ہوا کرتی تھی۔ آج آئینے میں نظر آنے والا چہرہ بہت خوفناک تھا۔ شاید یہ اس کا وہ اصل بدنما چہرہ تھا جو اس کے ظاہری حسین چہرے کے پیچھے چھپا تھا۔ آج پہلی بار وہ اپنے اس چھپے ہوئے چہرے کو دیکھ پائی تھی۔ اس چہرے کی دہشت سے خوفزدہ ہو کر اس نے ایک چیخ کے ساتھ زور دار مکہ آئینے پر دے مارا۔ آئینہ ٹوٹ کر کرچی کرچی ہو گیا اور لیلیٰ کے ہاتھ سے خون بہنے لگا۔ لیلیٰ کی چیخ اور آئینہ ٹوٹنے کی آواز سن کر ماریہ بھاگتی ہوئی کمرے میں آئی۔

یہ۔۔۔ یہ کیا کِیا تم نے؟" لیلیٰ کا زخمی ہاتھ دیکھ کر ماریہ گھبرا کر بولی، ”یہ تم نے ہاتھ کیسے زخمی"
کر لیا۔"

میں اپنے سارے جسم کو زخمی کر دوں گی، کاٹ ڈالوں گی، چھلنی چھلنی کر دو گی۔" لیلیٰ جذباتی ہو"
کر دھاڑی اور ٹوٹے ہوئے آئینے کے ایک ٹکڑے سے اپنے جسم پر کٹ لگانے شروع کر دیے۔

"لیلیٰ۔۔۔ ہوش میں آؤ۔" ماریہ نے اس کا ہاتھ روکتے ہوئے کہا، "آخر ہوا کیا ہے؟"

"میں اس جسم سے نجات چاہتی ہوں ماریہ۔ مجھے نہیں چاہیے یہ گناہ گار جسم۔ میں سزا دینا چاہتی 
ہوںاس جسم کو جو ساری زندگی برائی میں غرق رہا۔“ لیلیٰ نے سسکیاں لیتے ہوئے اپنے جذبات کا اظہار کیا۔

"نہیں لیلیٰ۔۔۔ جسم کو اذیت دینے سے گناہ دھل نہیں جایا کرتے۔" ماریہ نے دونوں ہاتھوں سے اس کے بازوؤں کو مضبوطی سے پکڑتے ہوئے کہا۔

"تو پھر میں کیا کروں ماریہ۔۔۔ مجھے اپنے آپ سے شرم محسوس ہو رہی ہے۔" لیلیٰ بے بس ہو کر ماریہ 
کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔

"اگر تمہیں احساس ہو گیا ہے کہ تم غلط راستے پر تھی تو فوراً برے اعمال سے توبہ کر لو۔ آئندہ کے
لیے ان اعمال سے بچنے کا خدا سے وعدہ کر لو۔ خدا تمہارے سب گناہ معاف کر دے گا لیلیٰ۔" ماریہ نے خوشی سے اس کا چہرہ دونوں ہاتھوں سے تھامتے ہوئے کہا۔

"کیا۔۔۔ کیا مجھ جیسی گنہگار کو اتنی آسانی سے معافی مل سکتی ہے؟" لیلیٰ نے حیران نظروں سے 
اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"ہاں لیلیٰ۔۔۔ تم اندازہ بھی نہیں کر سکتی کہ خدا اپنے بندوں پر کس قدر مہربان ہے۔ وہ تو بعض دفعہ 
ندامت کے آنسو بہانے پر ہی بڑے سے بڑے گنہگار کو بخش دیتا ہے۔" ماریہ نے اس کی پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے تسلی دی۔

ماریہ کی اس تسلی پر لیلیٰ کے غمگین چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ پھیلی اور وہ توبہ کے پکے ارادے کے ساتھ وضو کرنے کے لیے کمرے سے باہر کو چل دی۔
ختم شد