Wednesday 10 February 2016

لیلی کی کہانی - رومینٹک کیانی


لیلی کی کہانی
love letter

لیلیٰ نے کمرے میں داخل ہو کر اپنا پرس پلنگ پر اچھال دیا اور خود ڈریسنگ ٹیبل کی جانب بڑھ گئی۔ ڈریسنگ کے سامنے بیٹھ کر آہستہ آہستہ وہ اپنی جیولری اتارنے لگی۔ اس کے چہرے پر خاموش مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی۔ آج بھی اس کا شو بہت کامیاب رہا تھا۔ وہ دل ہی دل میں یہ سوچ کر خوش ہو رہی تھی کہ وہ ملک کی نمبر وَن سٹیج ڈانسر ہے۔ اس کا شو تو ہمیشہ ہی کامیاب رہتا تھا لیکن آج کی خاص بات یہ تھی کہ شو کے اختتام پر اس کے ایک پرستار نے اسے گاڑی گفٹ کی تھی۔

"واہ لیلیٰ واہ۔۔۔ تُو پانچ سات منٹ کے لیے سٹیج پر تھوڑی سی ادائیں کیا دکھاتی ہے، لوگ تجھ پرسب کچھ لٹانے پر تیار ہو جاتے ہیں۔" لیلیٰ نے آئینے میں اپنے حسین عکس سے مخاطب ہو کر فخر سے کہا۔

"تُو صرف ادائیں نہیں دکھاتی لیلیٰ۔۔۔ اِس نیم عریاں لباس میں تُو اپنے جسم کی نمائش بھی تو کرتی ہے۔" پیچھے سے آواز آئی۔ لیلیٰ نے چونک کر پیچھے دیکھا تو دروازے کے پاس اس کی بڑی بہن ماریہ کھڑی تھی جو نفرت سے اسے دیکھتے ہوئے طنز کے تِیر چلا رہی تھی۔
"تم۔۔۔؟" لیلیٰ یک دم پلٹ کر اٹھی اور بولی، ”تم میرے کمرے میں کیا کر نے آئی ہو؟
"کم از کم تمہیں اس بیہودہ لباس میں دیکھنے کے لیے تو نہیں آئی." ماریہ نے پھر سے طنز بھرے انداز میں اس کے لباس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اور ایک لفافہ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولی، "لو۔۔۔ یہ تمہارے لیے آیا ہے۔ یقیناً انہی بدکردار مردوں میں سے کسی کا ہو گا جنہیں تم اپنے پرستار کہتی ہو۔ کھول کر دیکھ لو، ہو سکتا ہے اس لفافے میں بھی تمہاری کسی ادا کی قیمت بند ہو۔"

ماریہ لفافہ اسے تھما کر کمرے سے نکل گئی اور لیلیٰ کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھتی ہی رہ گئی۔ لیلیٰ نے دیکھے بغیر لفافہ پلنگ پر پھینک دیا اور دوبارہ ڈریسنگ کے سامنے بیٹھ گئی۔ ماریہ کی کڑوی کڑوی باتوں نے اس کی ساری خوشی نِگل لی تھی۔ خراب موڈ کے ساتھ اس نے جلدی جلدی باقی ماندہ جیولری اتاری اور پلنگ پر آبیٹھی۔ اب اس نے وہ لفافہ اٹھا کر دیکھا۔ لفافے کے ایک کونے پر لکھا تھا "فرام۔۔۔ ارحم". یہ نام پڑھ کر لیلیٰ کی پیشانی کی سلوٹیں مدھم پڑ گئیں اور چہرے پر پھر سے مسکراہٹ پھیل گئی۔

آئے دن لیلیٰ کے لیے کسی نہ کسی پرستار کا خط، کارڈ یا پھولوں کا تحفہ آتا رہتا تھا۔ ان میں سے اکثر خطوط تو لیلیٰ پڑھے بغیر ہی پھاڑ دیا کرتی تھی کیونکہ زیادہ پر خطوط میں پرستاروں کی طرف سے محبت کا ہی اظہار ہوتا تھا جسے پڑھ پڑھ کر لیلیٰ تنگ آ چکی تھی۔ لیکن ارحم۔۔۔ ارحم کے خطوط نہ صرف لیلیٰ فرصت نکال کر پڑھتی بلکہ پڑھنے کے بعد انہیں سنبھال کر رکھ لیتی تھی۔ ارحم کے خطوط میں ہر بار کوئی نہ کوئی انوکھی خصوصیت ہوتی تھی۔ وہ اپنے خطوط میں لیلیٰ کی تعریف کچھ اس انداز سے کرتا تھا کہ پڑھ کر لیلیٰ کوخود پر پہلے سے زیادہ فخر ہونے لگتا۔ بعض دفعہ تو وہ لیلیٰ کو کسی خاص لباس یا خاص قسم کے بناؤ سنگھار کی فرمائش بھی کیا کرتا اور اس کی فرمائشوں کو لیلیٰ اپنے شو میں بڑے شوق سے پورا کرتی۔ لیلیٰ کو لگتا تھا کہ ایک ارحم ہی ہے جو سچے دل سے اس کی تعریف کرتا ہے جبکہ باقی سب خوشامد اور وقت گزاری کے طور پر اس کی تعریفیں کرتے ہیں۔ ارحم اسے خطوط تو باقائدگی سے بھیجتا تھا لیکن وہ کبھی اس کے سامنے نہیں آیا تھا۔ آج بھی اس کا خط دیکھ کر لیلیٰ نے خوشی خوشی لفافہ کھولا۔ خط میں لکھا تھا:

"ڈئیر لیلیٰ۔۔۔ ہو سکتا ہے میرا آج کا خط تمہیں خوشی دینے کی بجائے غمگین کر دے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسے پڑھنے کے بعد تمہیں مجھ سے نفرت ہو جائے۔ لیکن لیلیٰ۔۔۔ میرا یقین کرو، میں تمہارا مخلص ہوں۔ اس لیے تمہاری امانت تم تک پہنچانا میرا فرض بنتا ہے۔"

لیلیٰ خط کو پکڑے پکڑے تکیے کا سہارا لے کر نیم دراز ہوتے ہوئے سوچنے لگی، "لگتا ہے ارحم آج پھر کسی نئے انداز سے تعریف کرنا چاہ رہا ہے۔ لیکن یہ امانت کا کیا چکر ہے۔۔۔؟" اس نے مزید پڑھا تو لکھا تھا:

"لیلیٰ۔۔۔ کل رات میں نے ایک خواب دیکھا۔ اس خواب میں مَیں نے تمہیں دیکھا۔ جب سے آنکھ کھلی ہے تب سے دل بہت بے چین ہے۔ نہ کچھ کھانے پینے کو دل چاہتا ہے، نہ کسی سے بات کرنے کو۔"

"ہا ہا ہا۔۔۔“ لیلیٰ یہ پڑھ کر ہنس دی اور خود سے مخاطب ہو کر بولی، "لو جی۔۔۔ بس خوابوں میں آنے کی کسر رہ گئی تھی۔ آج سے ہم اُن کے خوابوں میں بھی آنے لگے۔ اور ظاہر ہے، ہم جس کے خوابوں میں آئیں گے اس کا چین وین تو اُڑے گا ہی۔" لیلیٰ کا غرور سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ آگے پڑھا تو لکھا تھا:

"میں نے تمہیں خواب میں زمین پر نہیں دیکھا۔ شاید تم آسمان پر تھی۔ میں بھی وہاں موجود تھا۔ وہ ایک ایسی عجیب و غریب جگہ تھی کہ ایسی جگہ میں نے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔"

"ارے یہ کیا۔۔۔ اب ارحم بھی دوسرے ایرے غیرے پرستاروں کی طرح مجھے آسمان پر لے جانے کے خواب دیکھنے لگا۔ ہا ہا ہا۔"
:پھر قہقہہ لگایا اور آگے پڑھنے لگی۔ لکھا تھا

"برا نہ منانا لیلیٰ۔ وہ جگہ۔۔۔ وہ جگہ دراصل جہنم تھی۔"

اوہ شِٹ۔۔۔" لیلیٰ خط اپنے ہاتھ سے نیچے پھینکتے ہوئے بولی،"یہ کیا ہو گیا ہے ارحم کو۔ دماغ تو نہیں خراب"
"ہو گیا اس کا۔ یقین نہیں آتا کہ ایسا بیہودہ خط ارحم نے لکھا ہے۔

تھوڑی دیر لیلیٰ اسے کوستی رہی۔ پھر اچانک اسے خیال آیا کہ ارحم کا اندازِ تحریر ہمیشہ مختلف رہا ہے۔ ہو سکتا ہے یہ بھی اس کا کوئی نیا انداز ہو یا وہ کچھ اور کہنا چاہ رہا ہو۔ اس خیال کے ساتھ ہی اس نے دوبارہ
:خط اٹھا لیا۔ آگے تحریر تھا

وہاں میں نے کچھ فرشتے بھی دیکھے جنہوں نے زبردستی تم کو عجیب سی خوفناک آگ کا بنا ہوا لباس پہنا
"دیا۔ تم چیختی چلاتی رہی لیکن انہوں نے تمہاری ایک نہ سنی۔

اُف۔۔۔ یہ کیا بکواس ہے۔" لیلیٰ شدید غصے میں آ گئی۔ اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ غصے میں
اسنے خط کو دو حصوں میں پھاڑ کر پلنگ پر ہی ایک طرف پھینک دیا اور خود دل پر ہاتھ رکھ کر اپنی 
دھڑکنوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرنے لگی۔

وہ میرے سامنے آیا تو میں اس کا خون پی جاؤں گی۔ سمجھتا کیا ہے وہ خود کو۔ اس کی ہمت کیسے ہوئی"
"میرے بارے میں ایسی بکواس لکھنے کی۔

لیلیٰ ارحم کو کوستے ہوئے خود سے ہمکلامی کے انداز میں بڑبڑائی۔ چند لمحوں بعد ایک خیال نے اسے چونکا دیا کہ کیا واقعی ارحم نے اس کے متعلق ایسا خواب دیکھا ہو گا؟ اور اگر دیکھا ہو گا تو کیا یہ خواب سچ بھی ہو سکتا ہے؟ کیا مرنے کے بعد میرا ایسا ہی انجام ہو گا؟ اس خیال نے لیلیٰ کے جسم میں ایک بجلی کی سی رو پیدا کر دی۔ اس کا سارا جسم کانپ اٹھا۔ وہ جھٹ سے اٹھ کر بیٹھ گئی اور خط کے دونوں ٹکڑوں
:کو دوبارہ ملا کر پڑھنا شروع کردیا۔ آگے لکھاتھا

آگ کے لباس نے تمہارے جسم کو یوں جھلسا دیا کہ تمہاری کھال گل کر ہڈیوں اور گوشت سے علیحدہ ہونے"
"لگی۔

خوف سے لیلیٰ کی آنکھیں پھٹی جا رہی تھیں لیکن اس نے اردہ کر لیا تھا کہ اب وہ پورا خط پڑھ کر ہی
:دم لے گی۔ لہٰذا وہ پڑھتی گئی۔ خط میں مزید لکھا تھا

جب تمہاری ساری کھال اتر گئی تو تمہاری نئی کھال پیدا کر دی گئی۔ پھر وہ کھال بھی گل گئی۔ یہ عمل"
مسلسل جاری تھا اور تمہاری چیخوں سے جہنم کی دیواریں لرز رہی تھیں۔ مجھے تم پر بہت ترس آیا لیکن میں کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ میں قریب کھڑا یہ سب دیکھتا رہا۔ پھر میں نے فرشتوں سے پوچھا کہ تم لوگ اس کے ساتھ ایسا سلوک کیوں کر رہے ہو۔ انہوں نے جواب دیا کہ اس نے جس جسم کو لوگوں کی نظروں کے سامنے بے پردہ چھوڑ دیا تھا وہ جسم اسی لباس کے قابل ہے جو اِسے پہنایا گیا ہے۔ 
پھر میں نے دیکھا کہ کچھ اور فرشتے آتے ہیں۔ ان کے پاس بڑے بڑے کلہاڑے کی طرح کے اوزار ہیں۔ وہ ان کلہاڑے نما اوزاروں سے ایک ہی وار میں تمہارے پاؤں پنڈلیوں سمیت کاٹ ڈالتے ہیں۔ تمہاری درد ناک چیخ سے ایک بار پھر جہنم کی دیواریں لرزنے لگتی ہیں۔ چند لمحوں بعد تمہاری ٹانگیں دوبارہ جوڑ دی جاتی ہیں اور پھر اسی طرح کاٹی جاتی ہیں۔ یہ عمل بھی بار بار دہرایا جاتا ہے۔ میں بے چینی کے عالم میں پھر فرشتوں سے کہتا ہوں کہ آگ کے لباس کی سزا کیا کم تھی کہ ساتھ ساتھ یہ نئی سزا بھی شروع کر دی گئی ہے۔ فرشتے کہتے ہیں کہ یہ نئی سزا اس کے پاؤں اور ٹانگوں کی سزا ہے جن سے یہ مَردوں کے سامنے ناچ ناچ کر حرام کی کمائی حاصل کرتی تھی۔ اس کی حرام کی کمائی بھی غلاظت بن کر اس کے ساتھ ہی اِسی
"جہنم میں پہنچ چکی ہے۔ ابھی اسے وہ غلاظت بھی کھلائی جائے گی۔

مجھ سے تمہارا یہ حال دیکھا نہیں جاتا اس لیے میں وہاں سے بھاگنا شروع ہو جاتا ہوں اور بھاگتے بھاگتے
بہت دور چلا جاتا ہوں۔ معاف کرنا لیلیٰ۔۔۔ میں تمہارا سب سے بڑا پرستار ہوں لیکن میں بھی تمہیں تنہا چھوڑ کر بھاگ گیا۔ اب میں سوچتا ہوں کہ اگر مرنے کے بعد ابدی زندگی میں ہی مَیں تمہیں تکلیف سے نہیں بچا سکتا تو پھر دنیا کی مختصر زندگی میں تمہیں خطوط کے ذریعے خوش کرنے کا کیا فائدہ۔ یہی سوچ کر میں تم سے ہمیشہ کے لیے دور جا رہا ہوں۔ آج کے بعد تمہیں کبھی میرا خط موصول نہیں ہو گا۔
یہی خواب وہ امانت تھی لیلیٰ۔۔۔ جو خدا نے مجھے تمہارے لیے عطا کی۔ میں نے وہ امانت تم تک پہنچا دی ہے۔ اب تمہیں کیا کرنا چاہیے، کیا نہیں کرنا چاہیے، یہ تم خود سمجھ سکتی ہو۔ تم چاہو تو میرے اس خواب کی تعبیر الٹ بھی ہو سکتی ہے اگر تم ایسی زندگی چھوڑ دو جو تمہیں کہیں کا نہیں چھوڑے گی۔
"تمہارا خیر خواہ۔۔۔ ارحم

خط ختم ہو چکا تھا لیکن لیلیٰ کی نظریں ابھی بھی خط سے ہٹ نہیں پائی تھیں۔ اس کا جسم پسینے سے شرابور تھا اور آنکھیں برس برس کر گریبان کو بھگو چکی تھیں۔ حسن پر غرور کرنے والی لیلیٰ کو آج پہلی بار اپنے آپ سے گھِن آ رہی تھی۔ اس کا جی چاہ رہا تھا کہ اپنا منہ نوچ لے، اپنے ہی جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے، کہ کسی طرح اس گناہ گار جسم سے چھٹکارا حاصل ہو جائے۔ ایک بار پھر اٹھ کر وہ آئینے کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔ لیکن اب آئینے میں اسے وہ چہرہ نظر نہیں آ رہا تھا جسے دیکھ کر وہ ہر روز خوش ہوا کرتی تھی۔ آج آئینے میں نظر آنے والا چہرہ بہت خوفناک تھا۔ شاید یہ اس کا وہ اصل بدنما چہرہ تھا جو اس کے ظاہری حسین چہرے کے پیچھے چھپا تھا۔ آج پہلی بار وہ اپنے اس چھپے ہوئے چہرے کو دیکھ پائی تھی۔ اس چہرے کی دہشت سے خوفزدہ ہو کر اس نے ایک چیخ کے ساتھ زور دار مکہ آئینے پر دے مارا۔ آئینہ ٹوٹ کر کرچی کرچی ہو گیا اور لیلیٰ کے ہاتھ سے خون بہنے لگا۔ لیلیٰ کی چیخ اور آئینہ ٹوٹنے کی آواز سن کر ماریہ بھاگتی ہوئی کمرے میں آئی۔

یہ۔۔۔ یہ کیا کِیا تم نے؟" لیلیٰ کا زخمی ہاتھ دیکھ کر ماریہ گھبرا کر بولی، ”یہ تم نے ہاتھ کیسے زخمی"
کر لیا۔"

میں اپنے سارے جسم کو زخمی کر دوں گی، کاٹ ڈالوں گی، چھلنی چھلنی کر دو گی۔" لیلیٰ جذباتی ہو"
کر دھاڑی اور ٹوٹے ہوئے آئینے کے ایک ٹکڑے سے اپنے جسم پر کٹ لگانے شروع کر دیے۔

"لیلیٰ۔۔۔ ہوش میں آؤ۔" ماریہ نے اس کا ہاتھ روکتے ہوئے کہا، "آخر ہوا کیا ہے؟"

"میں اس جسم سے نجات چاہتی ہوں ماریہ۔ مجھے نہیں چاہیے یہ گناہ گار جسم۔ میں سزا دینا چاہتی 
ہوںاس جسم کو جو ساری زندگی برائی میں غرق رہا۔“ لیلیٰ نے سسکیاں لیتے ہوئے اپنے جذبات کا اظہار کیا۔

"نہیں لیلیٰ۔۔۔ جسم کو اذیت دینے سے گناہ دھل نہیں جایا کرتے۔" ماریہ نے دونوں ہاتھوں سے اس کے بازوؤں کو مضبوطی سے پکڑتے ہوئے کہا۔

"تو پھر میں کیا کروں ماریہ۔۔۔ مجھے اپنے آپ سے شرم محسوس ہو رہی ہے۔" لیلیٰ بے بس ہو کر ماریہ 
کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔

"اگر تمہیں احساس ہو گیا ہے کہ تم غلط راستے پر تھی تو فوراً برے اعمال سے توبہ کر لو۔ آئندہ کے
لیے ان اعمال سے بچنے کا خدا سے وعدہ کر لو۔ خدا تمہارے سب گناہ معاف کر دے گا لیلیٰ۔" ماریہ نے خوشی سے اس کا چہرہ دونوں ہاتھوں سے تھامتے ہوئے کہا۔

"کیا۔۔۔ کیا مجھ جیسی گنہگار کو اتنی آسانی سے معافی مل سکتی ہے؟" لیلیٰ نے حیران نظروں سے 
اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"ہاں لیلیٰ۔۔۔ تم اندازہ بھی نہیں کر سکتی کہ خدا اپنے بندوں پر کس قدر مہربان ہے۔ وہ تو بعض دفعہ 
ندامت کے آنسو بہانے پر ہی بڑے سے بڑے گنہگار کو بخش دیتا ہے۔" ماریہ نے اس کی پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے تسلی دی۔

ماریہ کی اس تسلی پر لیلیٰ کے غمگین چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ پھیلی اور وہ توبہ کے پکے ارادے کے ساتھ وضو کرنے کے لیے کمرے سے باہر کو چل دی۔
ختم شد
 




No comments:

Post a Comment